Results 1 to 2 of 2

Thread: شب برات Ú©ÛŒ فضیلت ØŒ Ø+قیقت کیا ہے؟ ... اسدالرØ+مان تیمی

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam شب برات Ú©ÛŒ فضیلت ØŒ Ø+قیقت کیا ہے؟ ... اسدالرØ+مان تیمی

    شب برات Ú©ÛŒ فضیلت ØŒ Ø+قیقت کیا ہے؟ ... اسدالرØ+مان تیمی

    shab e barat.jpg
    عوام میں نصف شعبان کی رات کا اہتمام کرنے اور خاص طور سے اسی رات میں عبادات انجام دینے کے کئی اسباب ہیں، جس میں سب سے پہلی اور اہم وجہ ہے: بعض علمائے کرام کا اس رات کا اہتمام کرنا اور ان کا اپنی کتابوں میں اس رات کو خصوصی فضیلت والا بتانا (دیکھئے قوت القلوب، ابوطالب مکی)۔
    ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ Ú©ÛŒ طرف منسوب ایسی بہت ساری اØ+ادیث کا وجود جن سے اس رات Ú©ÛŒ فضیلت، اس میں اعمال Ú©ÛŒ پیشی، عمر Ú©ÛŒ تØ+دید، رزق Ú©ÛŒ تقسیم، دعاء Ú©ÛŒ قبولیت اور خود رسول اللہ کااس رات عبادات Ú©Û’ اہتمام کا پتہ چلتا ہے لہٰذا اس عظیم ثواب Ú©Û’ Ø+صول اور سنت نبوی ؐ Ú©ÛŒ پیروی میں لوگ اس رات کااہتمام اور اس رات Ú©ÛŒ تعظیم میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے ہیں۔مزید براں فرمان باری تعالیٰ: فیہا یفرق Ú©Ù„ أمر Ø+کیم(الدخان 4)Û”"اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے"Ú©ÛŒ بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان Ú©ÛŒ رات ہے۔ علامہ زمخشری کہتے ہیں:
    اس رات Ú©Û’ 4 نام ہیںـ: اللیلۃ المبارکۃ، لیلۃ البراء ۃ، لیلۃ الصک ولیلۃ الرØ+مۃ، اس رات Ú©ÛŒ5خصوصیات بیان Ú©ÛŒ جاتی ہیں: ہرفیصلہ شدہ معاملہ Ú©ÛŒ تقسیم ØŒ اس رات عبادت Ú©ÛŒ فضیلت، رØ+مت کا نزول، نبی Ú©Ùˆ اسی رات شفاعت سے نوازا گیا، ظاہر ÛŒ طور پر اس رات زمز Ù… کا پانی بڑھ جاتا ہے(الکشاف للزمخشری)Û”
    جبکہ وہ مبارک رات جس میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ Ú©ÛŒ بانٹ ہوتی ہے ،اس سے کون سی رات مرادہے؟اس سلسلے میں علماء Ú©Û’2 اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ اس سے شب قدر مراد ہے۔ یہی جمہور علماء کا کہنا ہے، عبداللہ بن عمر Ø“ØŒ مجاہد، ضØ+اک، قتادہ، ابوزید اور Ø+سن بصری رØ+مہم اللہ اور بہت سارے اسلاف سے یہی منقول ہے(دیکھئے: زاد المسیر لابن الجوزی)Û”
    زیادہ تر مفسرین کا بھی ماننا ہے کہ مذکورہ رات سے مراد شب قدر ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ:
    "بے شک ہم نے اسے (قرآن) ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے، ہم نے بے شک (اس کے ذریعہ انسانوں کو) ڈرانا چاہا، اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے۔"(الدخان4) ۔
    اس آیت Ú©ÛŒ تفسیر میں علماء فرماتے ہیں کہ برکت والی رات سے مراد شب قدر ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ Ù†Û’ رات Ú©Ùˆ مبہم رکھا ہے لیکن دوسری جگہ واضØ+ کردیا ہے کہ جس برکت والی رات میں قرآن کریم اتارا گیا ہے، وہ شب قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    "بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"
    اور یہ نزول رمضان المباک کے مہینہ میں ہواجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    "وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا۔"(البقرہ185)۔
    اور یہاں جس برکت والی رات کا جس میں ذکر ہوا ہے، اس برکت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بیان میں صاف کردیا کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
    اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس رات Ú©Ùˆ مبارکہ(برکت والی ) رات کا نام اس لئے دیا ہے کہ اللہ اس رات لوگوں Ú©Û’ درجات میں اضافہ فرماتا ہے، ان Ú©ÛŒ لغزشوں Ú©Ùˆ معاف کرتا ہے، قسمت Ú©ÛŒ تقسیم کرتا ہے، رØ+مت پھیلاتا ہے اور خیر عطا کرتا ہے (اØ+کام القرآن لابن العربی)Û”
    ابن العربی کہتے ہیں:
    "اکثر علماء Ú©Û’ نزدیک :فیہا یفرق Ú©Ù„ امر Ø+کیم(الدخان4)یعن Œ اسی رات میں ہر Ø·Û’ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے، سے مراد شب قدر ہے جبکہ Ú©Ú†Ú¾ علماء کا کہنا ہے کہ یہ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات ہے لیکن یہ بے بنیاد بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اپنی سچی اور فیصلہ Ú©Ù† کتاب قرآن مجید میں فرمایا:وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا(البقرہ185)Û”
    یہاں اللہ تعالیٰ Ù†Û’ قطعی طور پر یہ بتادیا کہ نزولِ قرآن رمضان میں ہوا اور پھر رات Ú©Û’ وقت Ú©ÛŒ تعیین کرتے ہوئے فرمایا:برکت والی رات میں(الدخان3)Û” لہٰذا جس Ù†Û’ یہ گمان کیا کہ یہ دوسری کوئی رات ہے ،اس Ù†Û’ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا (اØ+کام القرآن لابن العربی)Û”
    ابن الجوزی کہتے ہیں
    "جو یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے اس کی دلیل کچھ ضعیف آثار ہیں جو قابل اعتبار نہیں۔"(زاد المسیر)۔
    علامہ شنقیطی کہتے ہیں:
    "وہ اØ+ادیث جن Ú©ÛŒ بنا پر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شعبان Ú©ÛŒ رات ہے، قرآن Ú©ÛŒ صراØ+ت Ú©Û’ خلاف ہونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ بے بنیادبھی ہیں، ان میں سے کسی Ú©ÛŒ سند درست نہیں، جیسا کہ ابن العربی اور دوسرے Ù…Ø+ققین کا کہنا ہے Û” Ø+یرت ہے اس مسلمان پر جو نصِ قرآن Ú©ÛŒ Ù…Ø+الفت کرتاہے اور قرآن وصØ+ÛŒØ+ Ø+دیث سے کسی دلیل Ú©Û’ بغیر قرآن Ú©ÛŒ وضاØ+ت سے انØ+راف کرتا ہے۔" (اضواء البیان) Û”
    نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں بعض علماء کے اقوال:
    اگر عوام اس رات کا اہتمام کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اس رات میں نماز ،دعااور نیکی Ú©Û’ امور انجام دیتے ہیں تو اس Ú©ÛŒ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ Ú©Ú†Ú¾ علمائے عظام سے اس رات Ú©ÛŒ فضیلت منقول ہے اور اللہ Ú©Û’ رسول اللہکی طرف منسوب ایسی ڈھیر ساری اØ+ادیث ہیں جن سے اس رات Ú©ÛŒ اہمیت کا پتہ چلتاہے نیز مذکورہ بالاسطور میں سلف Ú©ÛŒ ایک جماعت کا قول گزرچکا ہے کہ آیتِ کریمہ : فیہا یفرق Ú©Ù„ امرØ+کیم(الدخان4) §Ø³ÛŒ رات ہر Ø·Û’ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے ۔اس سے مراد نصف شعبان Ú©ÛŒ رات ہے۔ ذیل میں اس رات Ú©ÛŒ فضیلت اورعظمت Ú©ÛŒ بابت بعض علماء Ú©Û’ اقوال نقل کئے جاتے ہیں:Ù€
    « امام اØ+مد اور بعض Ø+نابلہ سے منقول ہے کہ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات فضیلت والی ہے (الفروع)Û”
    « امام شافعی سے مروی ہے کہ 5 راتوں میں خاص طور پر دعاء قبول کی جاتی ہے جن میں نصف شعبان کی رات بھی ہے (السنن الکبریٰ للبیہقی)۔
    « ملاعلی القاری کہتے ہیں: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات میں فرق (Ø·Û’ شدہ معاملہ کا بٹوارہ ) ہوتا ہے، جیسا کہ Ø+دیث اس Ú©ÛŒ صراØ+ت کرتی ہے البتہ اختلاف اس میں ہے کہ آیت میں مذکورہ رات سے مراد کونسی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات اس سے مراد نہیں، ایسی صورت میں آیت اور Ø+دیث سے یہ اخذ کیا جائے گا کہ ان دونوں راتوں میں Ø·Û’ شدہ معاملہ Ú©ÛŒ بانٹ ہوتی ہے دونوں راتوں Ú©ÛŒ عظمت Ú©ÛŒ وجہ سے Û” یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک رات میں اجمالی طور پر ’’فرق‘‘ (Ø·Û’ شدہ معاملہ Ú©ÛŒ تقسیم) ہو اور دوسری رات میں تفصیلی طور پر یا یہ کہ ایک رات دنیوی امور Ú©Û’ لئے جبکہ دوسری اخروی امور Ú©Û’ لئے خاص ہو (نقلا عن تØ+فۃ الاØ+وذی)Û”
    « نواب صدیق Ø+سن خان Ù†Û’ اپنی کتاب ’’السراج الوہاج‘‘ میں لکھا ہے کہ :
    " شعبان میں روزے کی کثرت کی تخصیص کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے۔"
    « عبدالرØ+من مبارکپوری کہتے ہیں:
    "نصف شعبان Ú©ÛŒ رات Ú©ÛŒ فضیلت Ú©ÛŒ بابت Ú©Ú†Ú¾ اØ+ادیث آئی ہیں جو مجموعی طور پر بتاتی ہیں کہ ان اØ+ادیث Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ نہ Ú©Ú†Ú¾ اصل ہے۔" (تØ+فۃ الاØ+وذی)Û”
    « عبدالرازق نے بیان کیا ہے کہ زیادمنقری جو ایک قاضی تھے، کہا کرتے تھے کہ نصف شعبان کی رات (کی عبادت) کا اجر شب قدر کے اجر کی مانند ہے(المصنف لعبدالرزاق)۔
    « امام نووی Ú©ÛŒ ’’المنہاج‘†میں بھی اس طرØ+ Ú©ÛŒ باتیں ہیں جن سے اس رات Ú©ÛŒ فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ اس رات اللہ Ú©Û’ ہاں بندوں Ú©Û’ اعمال Ú©ÛŒ پیشی ہوتی ہے (منہاج الطالبین للنووی)Û”
    « ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
    "بہت سارے علماء یا ہمارے بیشتر Ø+نبلی علماء اور ان Ú©Û’ علاوہ دیگر Ø+ضرات Ú©ÛŒ رائے یہی ہے کہ اس رات Ú©ÛŒ فضیلت ہے۔امام اØ+مد Ú©ÛŒ بات سے یہی معلوم پڑتا ہے۔چونکہ اس بارے میں متعدد اØ+ادیث آئی ہیں، سلف Ú©Û’ آثار سے اس Ú©ÛŒ تصدیق ہوتی ہے ،مسانید اورسنن میں اس Ú©ÛŒ بعض فضیلتیں مروی ہیں، گرچہ اس بارے میں دوسری چیزیں اپنی طرف سے Ú¯Ú‘Ú¾ÛŒ ہوتی ہیں۔" (اقتضاء الصراط المستقیم)Û”
    « بعلی کہتے ہیں:
    " جہاں تک نصف شعبان کی رات کی بات ہے تو اس کی فضیلت ثابت ہے، سلف میں بعض لوگ اس رات نوافل کااہتمام کیاکرتے تھے لیکن لوگوں کا مسجد میں اکٹھا ہوکر عبادت کرنا بدعت ہے۔ "
    نصف شعبان Ú©ÛŒ رات Ú©ÛŒ فضیلت اØ+ادیث Ú©Û’ آئینے میں:
    اس Ú©ÛŒ فضیلت میں جو اØ+ادیث آئی ہیں، ان میں چند درج ذیل ہیں:
    « سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں Ù†Û’ نبی Ú©Ùˆ (بستر پر) نہیں پایا، میں آپ Ú©ÛŒ تلاش میں نکلی، آپ مجھے بقیع میں ملے اس Ø+ال میں کہ اپنا سر آسمان Ú©ÛŒ طرف بلند کئے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا: اے عائشہ ! کیا تجھے اندیشہ تھاکہ اللہ اور اس Ú©Û’ رسول تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے؟سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: میں Ù†Û’ عرض کیا،نہیں یہ بات نہیں، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی Ú©Û’ پاس Ú†Ù„Û’ گئے ہیں، فرمایا: بے Ø´Ú© اللہ تعالیٰ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات آسمانِ دنیا پر اتر تا ہے اور قبیلۂ کلب Ú©ÛŒ بکریوں Ú©Û’ بال Ú©ÛŒ تعداد سے بھی زیادہ لوگوں Ú©ÛŒ بخشش فرماتا ہے۔
    یہ ایک ضعیف Ø+دیث ہے۔دیکھئے ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ امام ترمذی: کہتے ہیں: سیدہ عائشہؓ Ú©ÛŒ یہ Ø+دیث صرف Ø+جاج Ú©Û’ سند سے ہی مجھے معلوم ہے۔ میں Ù†Û’ Ù…Ø+مد سے سنا کہ یہ Ø+دیث ضعیف ہے۔ ÛŒØ+ییٰ بن ابی کثیر Ù†Û’ عروہ سے نہیں سنا۔ Ù…Ø+مد کہتے ہیں: Ø+جاج Ù†Û’ ÛŒØ+ییٰ بن ابی کثیر سے بھی نہیں سنا۔
    عبدالرØ+من مبارکپوری تØ+فۃ الاØ+وذی کہتے ہیں: یہ Ø+دیث Ø+جاج اور ÛŒØ+ییٰ Ú©Û’ درمیان اور ÛŒØ+ییٰ اور عروہ Ú©Û’ درمیان 2 جگہوں پہ منقطع ہے۔ التہذیب میں ہیـ: ÛŒØ+ییٰ بن المتوکل العمری Ú©Ùˆ اØ+مد، ابن معین اور دوسرے لوگوں Ù†Û’ ضعیف گردانا ہے۔ ابن معین Ù†Û’ کہاہے کہ وہ Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں Û” جو زجانی Ù†Û’ کہتے ہیں: اس Ú©ÛŒ Ø+دیثیں منکر ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں: یہ Ø+دیث کئی مضطرب اور غیر ثابت سندوںسے مروی ہے۔ صاØ+ب ’’العلل المتناہیہ‘‘ Ù†Û’ اسے سلیمان بن ابی کریمۃ عن ہشام عن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ Ú©ÛŒ سند سے بھی روایت کیا ہے۔ ابن الجوزی اس سند Ú©Û’ بارے میں کہتے ہیں : یہ Ø+دیث صØ+ÛŒØ+ نہیں Û” ابن عدی کہتے ہیں: سلمان بن ابی کریمہ Ú©ÛŒ Ø+دیثیں منکر ہیں۔ اس Ú©ÛŒ ایک دوسرے سند میں عطاء بن عجلان ہے جس Ú©Û’ بارے میں ÛŒØ+ییٰ بن معین فرماتے ہیں: وہ بھی Ú©Ú†Ú¾ نہیں ،اس کیلئے Ø+دیثیں Ú¯Ú¾Ú‘ÛŒ جاتی تھیں۔ بخاری Ù†Û’ اسے منکر الØ+دیث کہا ہے( فیض القدیر للمناوی، الکامل لابن عدی)Û” ایک دوسری روایت ہے :سیدناابوموسیٰ اشعری Ø“ØŒ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں:
    "نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پرآتا ہے اور شرک وکینہ پرور کو چھوڑ کر اپنی ساری مخلوق کی مغفرت فرماتا ہے۔" (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)۔مجمع الزوائد میںہے:
    اس Ú©ÛŒ سند ضعیف ہے عبداللہ بن لہیعہ Ú©Û’ ضعف اور الولید بن مسلم Ú©ÛŒ تدلیس Ú©ÛŒ وجہ سے۔امام منذری کہتے ہیں: Ø+دیث Ú©Û’ راوی ابن عز رب Ú©ÛŒ ابو موسیٰ ؓسے ملاقات نہیں۔ اس Ø+دیث Ú©Ùˆ صاØ+ب کنزالعمال Ù†Û’ بھی ابن ماجہ Ú©Û’ Ø+والے سے نقل کیا ہے( العلل المتناہیۃ، مصنف عبدالرزاق اورتØ+فۃ الذاکرین للشوکانی میں اس Ú©Ùˆ دیکھا جاسکتا ہے)Û”
    تقریبا Ù‹ اسی قسم Ú©Û’ الفاظ میں یہ Ø+دیث معاذ بن جبل سے بھی مروی ہے(منذری ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں اس Ø+دیث Ú©Ùˆ ذکر کرنے Ú©Û’ بعد کہتے ہیں: رواہ الطبرانی وابن Ø+بان فی صØ+ÛŒØ+ہ)Û”
    سیدناابوبکر صدیق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:
    "اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اتر تاہے اور ہر شخص کی مغفرت فرماتا ہے سوائے اس کے جس کے دل میں کینہ ہو یا جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو۔"
    صاØ+ب ’’العلل Ø§Ù„Ù…ØªÙ†Ø§ÛÛŒÛâ€˜â€˜Ù†Û ’ اسے ذکر کرنے Ú©Û’ بعدکہا کہ یہ Ø+دیث درست ہے نہ ثابت ہے۔ابن Ø+بان اس Ú©Û’ ایک راوی عبدالملک Ú©Û’ بارے میں کہتے ہیں کہ’’لایتابع علی Ø+دیثہ‘‘۔امام ÛŒØ+یٰ بن معین اور نسائی کہتے ہیں کہ’’ وہ Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں‘‘ ۔امام بخاری کہتے ہیں’’اس Ú©ÛŒ یہ Ø+دیث Ù…Ø+Ù„ نظر ہے‘‘ Û”( دیکھئے میزان الاعتدال لیکن منذری ’’الترغیب ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ امام بزار اور بیہقی Ù†Û’ ابوبکر صدیق Ø“ سے ایک سند سے روایت کیا ہے جس میں کوئی Ø+رج نہیں)Û”
    یہ Ø+دیث ایک دوسری سند : الاØ+وص بن Ø+کیم عن Ø+بیب بن صہیب عن ابی ثعلبہ الخشنی سے بھی منقول ہے(العلل المتناہیہ میں ابن الجوزی کہتے ہیں ’’یہ Ø+دیث صØ+ÛŒØ+ نہیں ‘‘، امام اØ+مد فرماتے ہیں’’اØ+وص Ú©ÛŒ اØ+ادیث روایت نہیں جاتیں‘‘، ÛŒØ+یٰ بن معین کہتے ہیں’’وہ Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں‘‘ ۔دار قطنی کہتے ہیں’’وہ منکر الØ+دیث ہے‘‘ اور’’یہ Ø+دیث مضطرب اور غیر ثابت ہے‘‘، جبکہ بیہقی Ù†Û’ ’’مرسل جید‘‘ کہا ہے)Û”
    ایک دوسری سند سے سیدنا ابوہریرہ ؓسے بھی مروی ہے (’’العلل المتناہیہ‘‘، ابن الجوزی کہتے ہیں ’’Ø+دیث درست نہیں، اس میں کئی مجہول راوی ہیں‘‘۔ دارقطنی کہتے ہیں:یہ Ø+دیث معاذ اورعائشہ ؓسے بھی منقول ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ Ù…Ú©Ø+ول کا قول ہے، بہر Ø+ال یہ Ø+دیث ثابت نہیں)Û” بعض روایات میں آیا ہے کہ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات میں عمر Ù„Ú©Ú¾ دی جاتی ہے اور اس سال مرنے والوں Ú©Û’ بارے میں فیصلہ ہوتا ہے۔مثلاً دینوری Ù†Û’ اپنی کتا ب ’’المجالسۃ‘⠀˜ میں راشد بن سعدان سے روایت کیا ہے کہ نبی Ù†Û’ فرمایا:
    "نصف شعبان Ú©ÛŒ رات اللہ تعالیٰ موت Ú©Û’ فرشتہ Ú©Ùˆ اس سال مرنیوالوں Ú©Û’ بارے میں ÙˆØ+ÛŒ بھیجتا ہے۔"(الترغیب للمنذریوقال: رواہ ابویعلی۔ وہو غریب واسنادہ Ø+سن والدر المنثور، وکنزل العمال، ونسبہ الی الدینوری فی المجالسۃ عن راشد بن سعد مرسلا وفی المیزان، وثقۃ ابن معین وضعفہ ابن Ø+زم والتہذیب)
    ابن ابی الدنیا Ù†Û’ عطاء بن یسار سے روایت کیا جاتا ہے کہ ’’جب نصف شعبان Ú©ÛŒ رات ہوتی ہے تو موت Ú©Û’ فرشتہ Ú©Ùˆ ایک صØ+یفہ دیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں جن لوگوں Ú©Û’ نام ہیں ان Ú©ÛŒ روØ+ قبض کرلو، بندہ بستر پہ سویا ہوتا ہے، شادی کرتا ہے اور گھر بناتا ہے جبکہ اس کا نام اس صØ+یفہ میں لکھا ہوتا ہے(Ø§Ù„Ø¯Ø±Ø§Ù„Ù…Ù†Ø«ÙˆØ±Ø Œ ومصنف عبدالرزاق)Û”
    سیدہ عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
    " 4راتوں میں اللہ تعالیٰ خیر Ú©Û’ دروازے کھول دیتا ہے: عیدالاضØ+ÛŒ Ú©ÛŒ رات، عیدالفطر Ú©ÛŒ رات، نصف شعبان Ú©ÛŒ رات جس میں عمر، روزی اور Ø+ج کرنے والے Ú©Û’ بارے میں لکھا جاتا ہے اور عرفہ Ú©ÛŒ رات، صبØ+ Ú©ÛŒ اذان تک۔" (الدر المنثور، وقال ابن العربی : لایصØ+ فیہا شیٔ ولافی نسخ الآجال ،اØ+کام القرآن)Û”
    بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات دعا قبول ہوتی ہے مثلاً عبدالرزاق نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے :"
    4"راتوں میں دعاء مستردنہیں ہوتی: جمعہ کی رات ،پہلی رجب کی رات، نصف شعبان کی رات اورعیدین کی رات۔"(مصنف عبدالرزاق)۔
    نصف شعبان کی رات میں عبادات کااہتمام:
    نصف شعبان Ú©ÛŒ رات Ú©ÛŒ فضیلت بیان کرنے والی مذکورہ اØ+ادیث Ú©ÛŒ بنا پر لوگ نہ صرف اس رات Ú©ÛŒ تعظیم کرتے ہیں بلکہ اس رات میں نماز اور دعاء کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اس رات میں عبادت کرنے Ú©Û’ سلسلے میں جو اØ+ادیث آئی ہیں، ان میں سیدنا علی بن ابی طالب Ø“ Ú©ÛŒ یہ Ø+دیث بھی ہے کہ رسول اللہ Ù†Û’ فرمایا:
    "جب نصف شعبان ہو تو رات میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات آفتاب غروب کے بعد آسمانِ دنیا پر اتر تاہے اور فرماتا ہے: ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا جسے میں بخشش دوں؟ ہے کوئی روزی مانگنے والا جسے میں روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ، جس کی مصیبت دور کروں؟ یہاں تک فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)۔
    مجمع الزوائد میں ہے: Ù…Ø+مد بن ابی سبرۃ جس کا نام ابوبکر عبداللہ بن Ù…Ø+مد بن ابو سبرۃ ہے، اس Ú©ÛŒ وجہ سے یہ Ø+دیث ضعیف ہے۔ امام اØ+مد اور ÛŒØ+یٰ بن معین Ù†Û’ کہا ہے کہ وہ Ø+دیث گھڑتا تھا(التہذیب)Û” بخاری Ù†Û’ اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن Ø+بان کہتے ہیںـ وہ ثقہ رواۃ سے من گھڑت Ø+دیثیں روایت کرتا تھا،اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں(العلل المتناہیہ)Û” Ø+افظ عراقی کہتے ہیں: نصف شعبان Ú©ÛŒ رات Ú©ÛŒ نماز والی Ø+دیث جسے ابن ماجہ Ù†Û’ سیدنا علیؓ سے روایت کیا ہے، باطل ہے (تخریج اØ+ادیث الاØ+یاء)Û”
    ابن قیم Ù†Û’ اس Ø+دیث Ú©ÙˆØ+ضرت علیؓ سے مختلف الفاظ میں روایت کرنے Ú©Û’ بعد کہا ہے کہ :جو لوگ Ø+دیث کا معمولی علم بھی رکھنے Ú©Û’ باوجود اگر اس قسم Ú©ÛŒ لغو یات پر دھوکہ کھاتے اور اس رات نماز پڑھتے ہیں تو ان Ú©ÛŒ عقل پر Ø+یرت ہے( المنار المنیف)Û”
    ابن جوزی نے ابن کردوس عن ابیہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
    " جس Ù†Û’ Ø¹ÛŒØ¯Ø§Ù„ÙØ·Ø±ØŒØ¹ÛŒØ¯Ø§Ù„Ø §Ø¶Ø+ÛŒ اور نصف شعبان Ú©ÛŒ راتوں میں عبادت کیا ،اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا۔"
    ابن الجوزی فرماتے ہیں: یہ Ø+دیث رسول اللہ سے ثابت نہیں۔ اس Ú©ÛŒ سند میں بہت سی آفتیں ہیں۔ اس Ú©Û’ ایک راوی مروان بن مسلم Ú©Û’ بارے میں امام اØ+مد کہتے ہیں ’’ثقہ نہیں‘‘ جبکہ نسائی، دار قطنی اور اَزدی Ù†Û’ اسے متروک الØ+دیث کہا ہے۔اس Ú©Û’ ایک دوسرے راوی مسلمہ بن سلیمان Ú©Û’ بارے میں ازدی کہتے ہیں کہ ضعیف ہے ،ایک اور راوی عیسیٰ Ú©Û’ بارے میں ÛŒØ+یٰ بن معین Ù†Û’ کہا ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں۔ د(یکھئے، میزان الاعتدال، التہذیب، والکامل لابن عدی )Û”
    اس رات نماز Ú©ÛŒ کیفیت اور اس کا Ø+Ú©Ù…:
    جن روایات میں اس رات Ú©ÛŒ خاص نماز کا ذکر آیا ہے ØŒ ان میں نماز Ú©ÛŒ کیفیت اور رکعات Ú©ÛŒ تعداد الگ الگ طور پر بیان Ú©ÛŒ گئی ہیں۔Ø+ضرت ابوہریرہ Ø“ سے روایت ہے کہ نبی Ù†Û’ فرمایا:
    " جس Ù†Û’ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات 12 رکعتیں پڑھیں اور ہررکعت میں30 بار’’قل ہو اللہ اØ+د‘‘ پڑھا تو وہ قبر سے نکلنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ Ù„Û’ گا اور اس Ú©Û’ گھر Ú©Û’ ایسے10 اشخاص Ú©ÛŒ سفارش قبول Ú©ÛŒ جائے Ú¯ÛŒ جو جہنم Ú©Û’ مستØ+Ù‚ ہوں Ú¯Û’Û”"
    ابن الجوزی اس Ø+دیث Ú©ÛŒ بابت فرماتے ہیں: یہ ایک من گھڑت Ø+دیث ہے جس Ú©ÛŒ سند میں بہت سارے مجہول راوی ہیں۔ لیث تو ضعیف راوی ہیں ہی، ان سے پہلے Ú©Û’ راوی مصیت ہیں، الموضوعات، امام شوکانی Ù†Û’ بھی الفوائد المجموعہ میں کہا کہ یہ ایک من گھڑت Ø+دیث ہے۔
    بیہقی Ù†Û’ سیدنا علی Ø“ سے روایت کیا ہے کہ :میں Ù†Û’ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات نبی Ú©Ùˆ دیکھا کہ آپنے14 رکعتیں پڑھیں اور نماز سے فارغ ہونے Ú©Û’ بعد 14 بار سورۃ فاتØ+ہ پڑھا 14 بار’’قل ہو اللہ اØ+د‘‘ ØŒ ’’قل اعوذ رب الفلق‘‘ اور’’قل اعوذ برب الناس‘‘14 بار آیت الکرسی ایک بار اور سورہ التوبۃ Ú©ÛŒ آیت ’’لقد جاء Ú©Ù… رسول من أنفسکم‘‘، اس Ú©Û’ بعد آپ Ù†Û’ فرمایا: جس Ù†Û’ میرے اس عمل Ú©Ùˆ اپنایا اس Ú©Ùˆ20 Ø+ج اور20 سال روزہ کا ثواب ملے گا۔ اگر دوسری صبØ+ وہ روزہ رکھتا ہے تو اس کا روزہ 2سال Ú©Û’ روزے Ú©Û’ ثواب Ú©Û’ برابر ہوگا، ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال۔
    بیہقی کہتے ہیں: یہ Ø+دیث من گھڑت Ø+دیث جیسی ہے(الدر المنثور) ۔ابن الجوزی کہتے ہیں: یہ ایک من گھڑت Ø+دیث ہے اوراس Ú©ÛŒ اسناد تاریک ہے، اس Ú©ÛŒ سند میں Ù…Ø+مد بن مہاجر نام کا ایک شخص ہے، جس Ú©Û’ بارے میں اØ+مد بن Ø+نبل فرماتے ہیں: وہ Ø+دیث گھڑتا ہے(دیکھئے: الموضوعات لابن الجوزی)Û”

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نصف شعبان Ú©ÛŒ رات Ú©ÛŒ فضیلت ہے، جیسا کہ علمائے عظام Ú©ÛŒ باتوں سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس رات Ú©Ùˆ کسی متعین عبادت Ú©Û’ لئے خاص کرلیا جائے۔مثلاًرات میں نماز پڑھنا اوردن میں روزہ رکھنا کیونکہ اس بارے میں رسول اللہ سے کوئی قابل اعتماد Ø+دیث کاپتہ نہیں جبکہ کسی عبادت Ú©ÛŒ قبولیت Ú©ÛŒ2 شرطیں ہیں: صرف اللہ Ú©ÛŒ رضامندی Ú©Û’ لئے ہواور سنت Ú©Û’ مطابق ہو۔اگر کسی بھی عبادت میں ان دونوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو وہ عبادت قابل قبول نہیں۔




  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: شب برات Ú©ÛŒ فضیلت ØŒ Ø+قیقت کیا ہے؟ ... اسدالرØ+مان تیمی


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •